قرآن کریم کی سورۃ ’’الیتّن‘‘ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے، قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا اور اس پر امن شہر(مکّہ) کی ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا پھر اس الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا۔سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔پس(اے نبی) اس کے بعد کون جزا اور سزا کے معاملہ میں تم کو جھٹلا سکتا ہے۔مگر یہی انسان اعلیٰ اور بہترین استعداد اور صلاحیت کا حامل ہوتے ہوئے جو اس کی فطرت میں دی گئی ہیں۔ایمان اور صراط مستقیم سے ہٹنے اور انحراف کرنے کے بعد کفر کی راہ اختیار کرنے کے نتیجے میں ذلت‘ جہل‘ وحشت‘ کمینگی کی ایسی کھائی میں گر جاتا ہے جو ذلت و نکہت کا انتہائی درجہ ہے‘ ذلت‘ خواری ‘ بدی اور بدنامی کے اس انتہائی درجے پر بھی صرف انسان ہی گر سکتا ہے کوئی دوسرا ذی روح ایسی پستی میں نہیں گرے گا۔ پاک لینڈ سیمنٹ کراچی اور سعدی سیمنٹ کے مالک طارق محسن صدیقی خوش اطوار‘ خوش باش دوست تھے‘ غورو فکر کرنے والے صائب الرائے‘ اسلام آبادمیں ایک دن بات ہو رہی تھی۔کہا جب ہم گائوں میں تھے وہاں پر ان گننت بڑے لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ کردار میں‘ حسن اخلاق میں ذمہ داریوں کا احساس رکھنے والے سچے کھرے اور پنچائت میں بیٹھ کر فیصلہ کرتے وقت عادل اور انصاف پسند آج جب ہم شہر اقتدار میں حکمرانوں‘ ججوں‘ آئین سازوں کو دیکھتے ہیں تو یہاں کوئی ایک بڑا آدمی دیکھنے کو نہیں ملتا مشہور لوگ تو ہیں لیکن صاحب کردار بڑے لوگ نہیں ہیں۔طارق محسن کہنے لگے مشہور ہونے اور اقتدار کے ایوانوں تک آنے کے لئے جس ذلت اور خواری سے گزرنا پڑتا وہاں عزت وقار اعلیٰ اخلاق و کردار کا امکان ہی کہاں رہ جاتا ہے۔ 1985ء کی اسمبلی میں ڈیرہ اسماعیل خاں سے ہمارے ساتھ ایک ممبر پارلیمنٹ صابر شاہ ہوا کرتے تھے ،پیشے کے لحاظ سے ٹرانسپورٹر ڈھیلے ڈھالے سرائیکی بولا کرتے تھے پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں ملے شرمندہ شرمندہ کچھ گھبرائے ہوئے کیا بات ہے؟ کیوں گھبرائے سے پھرتے ہو؟ عجیب بات ہوئی ‘ ابھی وزیر اعظم محمد خان جونیجو صاحب نے اپنے چیمبر میں بلایا تھا خوش خوش ان سے ملنے گیا بہت دنوں سے ایک ذاتی کام کے لئے درخواست کر رکھی تھی لیکن جونیجو صاحب خاموش تھے ہاں ‘ناں نہ‘ آج بلایا تو خوش امیدی کے ساتھ حاضر ہوا جونیجو صاحب کہنے لگے شاہ صاحب آپ ہم سے ناراض ہیں؟ نہیں جناب ہماری مجال کہاں، ہم آپ سے کیوں ناراض ہونے لگے؟ بولے شاہ صاحب آپ مجھے گالی دیتے اور برے نام سے پکارتے ہیں صابر شاہ نے کہا‘ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آپ ہمارے لیڈر اور قابل احترام بزرگ ہیں۔ جونیجو صاحب نے میرے سامنے ٹیپ ریکارڈ رکھا، اس میں کیسٹ لگا کے چلا دیا۔اس میں دس پندرہ سکینڈ کی میری آواز میں گفتگو تھی۔میں نے ایک ایم این دوست سے کہا تھا جونیجو صاحب وزیر اعظم تو ہیں مگر بس…اس خالی جگہ صرف ایک لفظ تھا جسے لکھا جانا تو دور کی بات پرائیویٹ محفل میں کہتے بھی حیا آتی ہے مگر شاہ صاحب کا مذاق اکثر ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔حیرانی اس بات کی تھی کہ ایک ممبر قومی اسمبلی‘ اپنے دوست کی باتیں ریکارڈ کر کے وزیر اعظم کو دے دیتا ہے‘ اس سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم اسے سنبھال کے رکھتے اور اسے سنا بھی دیتے ہیں، جس نے یہ بے ضرر مگر بیہودہ بات کہی تھی ہمارے لئے یہ بڑا تعجب خیز واقعہ تھا کہ لوگوں کی باتیں ریکارڈ کر کے دوسروں تک پہنچائی جائیں‘ سوچتا رہا کہ کوئی شخص اتنا گھٹیا ‘ کمینہ ‘ خود غرض چغل خور کیسے ہو سکتا‘ جو کوئی ذمہ داری بھی نہیں نبھا رہا۔محض تفریحاً اور رضا کارانہ ایسی گھٹیا خدمات انجام دے رہا ہے، اس طرح کے واقعات اور مبالغہ آمیز خوشامد ‘خوشامد بھی سرعام پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں ان واقعات نے سیاستدانوں کے بارے میں رائے کو خراب کر دیا۔ ایک تو کسی انسان کی ذاتی‘شخصی وجاہت‘کردار اور وقار ہے‘ اعلیٰ عہدے اور اقتدار کی ذمہ داریاں‘ تمکنت رعب اور وقار میں اضافہ کرتی ہیں۔شخصی اہمیت کے علاوہ اعلیٰ منصب کے اپنے تقاضے رکھ رکھائو بھی ہے، جسے بہت سے سیاست دان بہت تعلیم اور تربیت نہ ہونے کی وجہ سے نبھا نہیں سکتے۔فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والی قریش کی عورتیں رسول اللہؐ کے ہاتھ بیعت کے لئے حاضر ہوئیں ان میں ابو سفیان کی بیوی ’’ہندہ‘‘ بھی تھی، آپ نے پردے کے پیچھے سے چادر کا ایک سرا پکڑا دوسرا پردے کی دوسری طرف خواتین کے ہاتھوں میں تھا‘ بیعت لیتے وقت حضور نے فرمایا ’’آپ اقرار کرو گی کہ چوری نہیں کرو گی اس پر ہندہ نے عرض کیا، میں اپنے شوہر کے مال میں سے کچھ ان کے علم کے بغیر بچوں کے لئے لیتی ہوں آپ نے فرمایا: وہ تمہارے لئے جائز ہے پھر فرمایا اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گی ہندہ جھٹ سے بولی ہم نے تو ان کو پال پوس کر بڑا کیا تھا، آپ نے انہیں قتل کر ڈالا،ہندہ کا اشارہ اپنے باپ‘ بھائی اور بھتیجے کی طرف تھا،جو جنگ بدر میں حضرت حمزہؓ اور حضرت علی ؓ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے پھر حضورﷺ نے فرمایا کہ تم زنا کی مرتکب نہیں ہونگی۔اس پر ہندہ نے کہا کوئی آزاد عورت ایسا گھٹیا کام کیسے کر سکتی ہے؟ دور جاہلیت کی ایک آزاد عورت کے کردار اور جرات اظہار کا طنطنہ اور بے باکی کا اندازہ کیجیے وہ کافرہ ہوتے ہوئے بھی کیسی خواتین تھیں، اپنے معاشرے میں لوگوں کی سب سے خراب رائے پولیس اور ریونیو کے محکموں کے بارے میں سیاستدانوں کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے، عدلیہ بھی جسٹس منیر کے فیصلے کے بعد سے رائے عامہ میں زیر عتاب ہے‘ ریاستی اداروں میں قوم کا فخر اور اعتبار اپنی مسلح افواج سے وابستہ رہا ہے،اس اعتبار کو بڑا جھٹکا یحییٰ خاں فوج کے سربراہ نے پہنچایا جو اپنی عیاشی اور کم کوشی کے سبب پاکستان کو دولخت کرنے اور ذلت آمیز شکست کا باعث بنا۔ تھوڑی کسر جو رہ گئی تھی وہ سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے پوری کر دی۔ حکومت کی تبدیلی‘ جرائم پیشہ کی سرپرستی ملک کے اقتدار اعلیٰ کے خلاف دشمنوں کی حوصلہ افزائی پاکستانیوں کی امنگوں کے خلاف اقدامات‘ سچ بولنے لکھنے والوں کے لئے قتل و غارت جھوٹے مقدمات ‘ قید و بند ایسا کچھ تو بھٹو کے دور اور مارشل لاء میں بھی ہوتا رہا لیکن میر جعفر اور میر صادق پکارنے جانے والے کی حالت یہ رہی کہ اس نے خود اعتراف کیا کہ قمر جاوید باجوہ وزراء اعظم کے ساتھ تنہائی میں ہونے والی ملاقاتوں میں چوری چھپے بات چیت ریکارڈ کیا کرتے تھے۔بے شک انسان کو بہترین استعدات اور فطرت پر پیدا کیا پھر ہم نے اسے سب نیچوں سے نیچ کر دیا۔(القرآن)